بچھڑ کے تجھ سے پھر کس سے پیار ہو نہیں سکا
جو خون دل کے رنگ میں ٹپک پڑے تھے آنکھ سے
ان آنسوؤں کا مجھ سے کاروبار ہو نہیں سکا
وہی تھا وہ وہی تھا میں، شکست دل کے بعد بھی
وہ مجھ سے اور میں اس سے شرمسار ہو نہیں سکا
سپاٹ خال و خد لئے کھڑا تھا اس کے سامنے
دکھاوے کے لئے بھی سوگوار ہو نہیں سکا
پلیٹ فارم پر تھا جس کا جسم روح ریل میں
اک ایسا شخص ریل میں سوار ہو نہیں سکا
جہاں گیا، مرے ہی اپنے لوگ منتظر ملے
میں بے دیار ہو کے بے دیار ہو نہیں سک
No comments:
Post a Comment