Saturday 14 May 2011


بچھڑ کے تجھ سے پھر کس سے پیار ہو نہیں سکا

جو خون دل کے رنگ میں ٹپک پڑے تھے آنکھ سے
ان آنسوؤں کا مجھ سے کاروبار ہو نہیں سکا

وہی تھا وہ وہی تھا میں، شکست دل کے بعد بھی
وہ مجھ سے اور میں اس سے شرمسار ہو نہیں سکا

سپاٹ خال و خد لئے کھڑا تھا اس کے سامنے
دکھاوے کے لئے بھی سوگوار ہو نہیں سکا

پلیٹ فارم پر تھا جس کا جسم روح ریل میں
اک ایسا شخص ریل میں سوار ہو نہیں سکا

جہاں گیا، مرے ہی اپنے لوگ منتظر ملے
میں بے دیار ہو کے بے دیار ہو نہیں سک

No comments:

Post a Comment